شامِ خزاں ہے زندگی



جب سے انسان نے بولنا سیکھا ہے تب سے الفاظ کا دامن تھامے ہوئے ہے۔ الفاظ ضمیر کا آئینہ ہوتے ہیں۔ ما فی الضمیر کی دبیز تہوں میں دبے ہوئے مفاہیم کو خوبصورت لبادہ پہنا کر مجسم صورت میں مخاطب کے سامنے لے آتے ہیں اور پھر مخاطب آن کی آن میں آپ کے ذہن تک پہنچ جاتا ہے، آپ کے دل کا حال پڑھ لیتا ہے، آپ کے گلستانِ افکار میں سیر کرنے لگتا ہے اور آپ کی سوچوں کی انگلی پکڑ کر آپ کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگتا ہے۔ ہاں! الفاظ آپ کے خیالات کے ترجمان ضرور ہوتے ہیں مگر اس کے
کہاں تک آنکھ کو ہم مبتلائے خواب رکھیں حصارِ دشت میں ہوں، کلفتِ سراب رکھیں ہر ایک رُخ سے تم اپنے دکھائی دیتے ہو سو بے رُخی کا مری جان کیا حساب رکھیں یقین ہے کہ پڑھو گے ہمارے لفظ تمام اگر کتاب کے آخر میں انتساب رکھیں نہ جانے کتنے اندھیرے ہوں گھات میں بیٹھے سو زادِ راہ میں دو چار آفتاب رکھیں تمہارا دستِ شفا کب ہے اپنی قسمت میں وگرنہ ہم بھی تمنائے اضطراب رکھیں وہ جا چکا ہے تو پھر یاد کیوں کریں اس کو اب اس کے بعد بھی کیا عادتِ عذاب رکھیں؟ ہمارے بس میں نہیں
بے گانوں کی اس بستی میں یاروں جیسے ہم صحراؤں کے سینوں پر گاروں جیسے ہم روز اک ٹکڑا لے جاتی ہے آندھی اپنے ساتھ گرتی پڑتی مٹی کی دیواروں جیسے ہم وحشت کے ماحول میں اپنا انت کسے معلوم بے انجام کہانی کے کرداروں جیسے ہم ہر منظر سے جھانک رہا ہے بھوک کا گہرا عکس خالی پیٹ مصوّر کے شہ پاروں جیسے ہم دامن میں ہے آنسو روتی خبروں کا انبار خون اگلتی بوسیدہ اخباروں جیسے ہم اندر کا یہ بوجھل پن آوارہ رکھتا ہے ورنہ کب تھے گلیوں میں بے کاروں جیسے ہم ثاقبؔ! ہمارے فن

تبلیغات

محل تبلیغات شما
محل تبلیغات شما محل تبلیغات شما

آخرین وبلاگ ها

آخرین جستجو ها

چلچراغ شهادت تشریفات عروس مدرس ریاضیات - دانشگاه صنعتی خواجه نصیرالدین طوسی تابلو روان امین موسوی فر dita ناهماهنگ رزرو هتل | رزرو هتل ارزان | رزرو هتل اروپا دانش پرستاری: از کلاس درس تا جامعه