بے گانوں کی اس بستی میں یاروں جیسے ہم صحراؤں کے سینوں پر گاروں جیسے ہم روز اک ٹکڑا لے جاتی ہے آندھی اپنے ساتھ گرتی پڑتی مٹی کی دیواروں جیسے ہم وحشت کے ماحول میں اپنا انت کسے معلوم بے انجام کہانی کے کرداروں جیسے ہم ہر منظر سے جھانک رہا ہے بھوک کا گہرا عکس خالی پیٹ مصوّر کے شہ پاروں جیسے ہم دامن میں ہے آنسو روتی خبروں کا انبار خون اگلتی بوسیدہ اخباروں جیسے ہم اندر کا یہ بوجھل پن آوارہ رکھتا ہے ورنہ کب تھے گلیوں میں بے کاروں جیسے ہم ثاقبؔ! ہمارے فن
اشتراک گذاری در تلگرام
درباره این سایت