کہاں تک آنکھ کو ہم مبتلائے خواب رکھیں حصارِ دشت میں ہوں، کلفتِ سراب رکھیں ہر ایک رُخ سے تم اپنے دکھائی دیتے ہو سو بے رُخی کا مری جان کیا حساب رکھیں یقین ہے کہ پڑھو گے ہمارے لفظ تمام اگر کتاب کے آخر میں انتساب رکھیں نہ جانے کتنے اندھیرے ہوں گھات میں بیٹھے سو زادِ راہ میں دو چار آفتاب رکھیں تمہارا دستِ شفا کب ہے اپنی قسمت میں وگرنہ ہم بھی تمنائے اضطراب رکھیں وہ جا چکا ہے تو پھر یاد کیوں کریں اس کو اب اس کے بعد بھی کیا عادتِ عذاب رکھیں؟ ہمارے بس میں نہیں

مشخصات

تبلیغات

محل تبلیغات شما
محل تبلیغات شما محل تبلیغات شما

آخرین وبلاگ ها

برترین جستجو ها

آخرین جستجو ها

کتابخانه ثامن الائمه نام نیک تربیت فرزندانی بهتر برای جهانی آبادتر. rama دست نوشته های یک موجی Danielle russia2.parsablog.com فروش کاربردی فایل های دانشجویی و دانش اموزی چادرانه دو سوته خرید کن تحویل بگیر